١. مستعمل پانی خود پاک ہے اگر کسی پاک چیز کو لگ جائے تو اس کے ناپاک نہیں کرتا اسی پر فتویٰ ہے
٢. مستعمل پانی پاک کرنے والا نہیں اوراس سے وضو یاغسل وغیرہ جائز نہیں ٣. جس پانی سے وضو یا غسل کیا جائے یا وہ پانی کسی عبادت کی نیت سے استعمال کیا جائے تو صحیح یہ ہے کہ جس وقت وہ عضو سے جدا ہو گا ۔مستعمل ہو جائے گا
٤. اگر اعضائے وضو کے سوا کسی اور وضو مثلاً ران یا پیٹ یا پنڈلی کو دھوئے تو اصح یہ ہے کہ پانی مستعمل نہ ہو گا اور اگر اعضائے وضو کو ۔دھوئے گا تو مستعمل ہو جائے گا
٥. اگر کسی شخص نے مٹی یا آٹا یا میل چھڑانے کے لئے وضو کیا یا پاک ۔شخص نے ٹھنڈا ہونے کے لئے غسل کیا تو پانی مستعمل نہ ہو گا
٦. اگر وضو والا آدمی کھانا کھانے کےواسطہ یا کھانا کھا کر ہاتھ دہوئے تو وہ دھوون کا پانی مستعمل ہو جائے گا کیونکہ قربت کی نیت سےاستعمال ہوا ہے
٧. اگر جنبی نے غسل کیا اور اس کے غسل کا کچھ مستعمل پانی اس کے برتن میں ٹپک گیا تو برتن کا پانی خراب نہیں ہو گا جب تک مستعمل پانی غالب نہ آ جائے یعنی غیر مستعمل پانی کے برابر یا اس سے زیادہ نہ ہو جائے۔اسی طرح اگر وضو کا کچھ مستعمل پانی وضو کے برتن میں ٹپکا تو جب تک مستعمل پانی غالب نہ آ جائے پاک ہے اور جب مستعمل پانی کی مقدار غیر مستعمل پانی کے ۔برابر یا زیادہ ہو جائے تو اس سے وضو و غسل ناجائز ہے
٨. اگر رومال سے اپنی اعضائے وضو یا غسل پونچھے اور رومال خوب بھیگ گیا یا اس کے اعضا سے قطرے ٹپک کر کسی کپڑے پر بہت زیادہ لگ گئے تو ۔بالاتفاق اس کے ساتھ نماز جائز ہے
٩. مستعمل پانی اگرچہ ظاہر مذہب میں پاک ہے لیکن اس کو پینا اور اس سے آٹا گوندھنا کراہتِ تنزیہی اور طبعی نفرت کی وجہ سے مکروہ ہے اور جن کے نزدیک مستعمل پانی نجس ہے ان کے نزدیک پینا و آٹا گوندھنا وغیرہ مکروہِ ۔تحریمی ہے
١٠. مستعمل پانی نجاست حکمی کو پاک کرنے والا نہیں لیکن نجاست حقیقی کو پاک کرنے والا ہے یہی راجح ہے
١١. مستعمل پانی میں اگر اچھا پانی اس سے زیادہ ملا لیا جائے یا اسے جاری کر لیا جائے تو نجاستِ حکمی کے پاک کرنے میں ( یعنی وضو و غسل) میں کام آ ۔سکتا ہے۔