اگر مقتدی آہستہ قرآت والی نماز یعنی ظہر و عصر میں امام سے وَلَا الضَّالَّینَ سن لے تو بعض مشائخ نے کہا ہے کہ آمین نہ کہے اس لئے کہ اس جہر کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ آمین کہے، جمعہ یا عیدین کی نماز میں یا اور جس نماز میں جماعت کثیر ہو اگر مقتدی بلاواسطہ امام کی تکبیر نہ سُنے بلکہ بالواسطہ سن لے یعنی دوسرے مقتدیوں کی ( جو امام کے قریب ہیں) آمین سن لے تو بعض کے نزدیک آمین کہے پھر کوئی سورة یا بڑی ایک آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھے تاکہ واجب قرآت ادا ہو جائے بلکہ قرآتِ مسنونہ کے مطابق پڑھے تاکہ کراہتِ تنزیہی دور ہو، قرآتِ مسنونہ کا بیان آگے آتا ہے، قرآت صاف صاف اور صحیح صحیح پڑھے جلدی نہ کرے لیکن اگر امام کے پیچھے نماز پڑھے یعنی مقتدی ہو تو صرف ثنا پڑھ کر خاموش کھڑا رہے تعوذ و تسمیہ سورة فاتحہ نہ پڑھے قرآت سے فارغ ہو کر رکوع کرے اس طرح پر کہ کھڑا ہوا اللّٰہ اکبر شروع کرے اور کہتے ہوئے جھکتا جائے یعنی تکبیر کی ابتدا جھکنے کی ابتدا کے ساتھ ہو اور فراغت اس وقت ہو جب پورا رکوع میں چلا جائے اور اس مسافت کو پورا کرنے کے لئے اللّٰہ کے لام کو بڑھائے اکبر کی ب وغیرہ کسی حرف کو نہ بڑھائے معتمد قول یہ ہے کہ سب قرآت پوری کر کے رکوع میں جائے کوئی حرف یا کلمہ جھکنے کی حالت میں پورا کرنے میں بعض کے نزدیک کچھ مضائقہ نہیں لیکن یہ قول ضعیف اور غیر معتمد ہے، امام رکوع و سجود کی تکبیروں میں جہر کرے اور ہر تکبیر میں اللّٰہ اکبر کی ر کو جزم کرے یعنی ساکن کرے، رکوع میں انگلیوں کو کھلا کر کے ان سے گھٹنوں کو پکڑ لے اور دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں پر سہارا دے انگلیوں کا کھلا رکھنا سوائے اس وقت کے اور انگلیوں کو ملا ہوا رکھنا سوائے حالت سجدہ کے اور کسی وقت سنت نہیں ہے یعنی نماز کے اندر ان دو موقعوں کے سوا اور سب موقعوں میں انگلیوں کو اپنی حالت میں رکھے نہ زیادہ کھلی ہوں نہ زیادہ ملی ہوئی ہوں، رکوع میں پیٹھ کو ایسا سیدھا بچھا دے کہ اگر اس پر پانی کا پیالہ رکھ دیا جائے تو ٹھیک رکھا رہے، سر کو نہ اونچا کرے نہ جھکائے بلکہ سر اور پیٹھ اور سرین ایک سیدھ میں رہیں، بازو پہلوئوں سے جدا رہیں، پنڈلیاں سیدھی کھڑی رہیں اپنے گھٹنوں کو کمان کی طرح جھکانا جیسا کہ اکثر عوام کرتے ہیں مکروہ ہے (بازئوں میں بھی خم نہیں ہونا چاہئے، اکثر عوام رکوع میں گھٹنوں اور بازئوں میں خم کر دیتے ہیں) رکوع میں نظر دونوں پائوں کی پیٹھ پر رہے اور سَبحَانَ رَبَّیَ العَظِیمَ تین بار پڑھے، یہ کم سے کم تعداد ہے اگر تسبیح بالکل نہ پڑھے یا ایک بار پڑھے تو بھی جائز ہے مگر مکروہِ تنزیہی ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ کراہتِ تنزیہی سے زیادہ تحریمی سے کم ہے (اس میں ائمہ کا اختلاف ہے، امام مالک اور بعض احناف کے نزدیک ایک تسبیح کہنا واجب ہے اس لئے ضروری کہہ لینا چاھئے تاکہ اختلاف ائمہ سے بچا رہے)