پھر دونوں طرف یعنی دائیں اور بائیں سلام پھیرے، پہلے سلام میں اس قدر داہنی طرف کو پھرے کہ اس کے داہنے رخسارے کی سفیدی اس طرف کے پیچھے والے نمازی کو نظر آ جائے اور اسی قدر بائیں طرف کو پھیرے یہی اصح ہے اور لفظ !
اَلسَّلَامُ عَلَیکُم وَ رَحمَتُ اللّٰہِ
کہے اگر صرف السلام علیکم یا صرف السلام یا علیکم السلام کہے گا تو کافی ہو گا مگر سنت کا تارک ہو گا اس لئے مکروہ ہو گا اور دائیں اور بائیں کو منھ پھیرنا بھی سنت ہے اور اس وقت نظر دائیں اور بائیں کندھے پر رہے یہ مستحب ہے، مختار یہ ہے کہ سلام الف لام کے ساتھ کہے اور اسی طرح تشھد میں ال کے ساتھ سلام کہے اور ختم نماز کے سلام میں وبرکاتہ نہ کہے بلکہ تشھد کے سلام میں کہے اور سنت یہ ہے کہ امام دوسرا سلام پہلے سلام کی بہ نسبت نیچی آواز سے کہے اور یہی بہتر ہے اگر صرف دائیں طرف سلام پھیر کر کھڑا ہو گیااور بائیں طرف سلام پھیرنا بھول گیا تو صحیح یہ ہے کہ اگر ابھی تک باتیں نہیں کی اور قبلے کی طرف پیٹھ نہیں کی تو بیٹھ کر دوسرا سلام پھیر دے اور اگر قبلے کی طرف کو پیٹھ پھیر چکا یا کلام کیا تو دوسرا سلام نہ پھیرے اور اگر اس کا الٹ کیا یعنی پہلے بائیں طرف کو سلام پھیر دیا تو جب تک کلام نہیں کیا اور قبلے سے نہ پھرا تب تک دائیں طرف کا سلام پھیر دے اور بائیں طرف کے سلام کا اعادہ نہ کرے اور اگر منھ کے سامنے کو (قبلے کی طرف) سلام پھیرا ہے تو دوسرا سلام بائیں طرف کو پھیر دے یعنی سامنے کا سلام دائیں طرف کے قائم مقام ہو جائے گا مقتدی کے سلام پھیرنے کے وقت میں اختلاف ہے مختار یہ ہے کہ مقتدی منتظر رہے اور جب امام داہنی طرف کو سلام پھیر چکے تب مقتدی داہنی طرف کو سلام پھیرے اور جب امام بائیں طرف کے سلام سے فارغ ہو تب مقتدی بائیں طرف کو سلام پھیرے اور جو محافظ فرشتے اور انسان اور صالح جن امام کے دونوں طرف ہیں سلام میں ان کی نیت دل میں کرے اور ہمارے زمانے میں عورتوں کی اور ان لوگوں کی جو نماز میں شریک نہیں نیت نہ کرے یہی صحیح ہے اور مقتدی دائیں بائیں طرف کے مقتدی لوگوں اور جنوں اور فرشتوں کے ساتھ امام کی نیت بھی کرے پس اگر امام داہنی طرف ہو تو اس طرف کے لوگوں میں اور بائیں طرف ہو تو اس طرف کے لوگوں میں امام کی بھی نیت کرے اور امام سامنے ہو تو امام ابو یوسف کے نزدیک دائیں جانب کے لوگوں میں اس کی نیت کرے اور امام محمد کے نزدیک دونوں طرف امام کی بھی نیت کرے امام ابو حنیفہ سے بھی یہی روایت ہے اور یہی صحیح ہے اور تنہا نماز پڑھتا ہو تو صرف فرشتوں کی نیت کرے اور کسی کی نیت نہ کرے فرشتوں کی نیت میں کوئی تعداد معین نہ کرے یہی صحیح ہے ( سلام میں اس نیت سے اکثر لوگ غافل ہیں)۔