اور جن نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں یعنی فجر اور عصر ان میں امام کو اسی جگہ قبلے کی طرف منھ کئے ہوئے بیٹھ کر توقف کرنا مکروہ ہے اور نبی کریم صلی اللّٰہ وعلیہ وسلم نے اس کا نام بدعت رکھا ہے لیکن یہ کراہتِ تنزیہی ہے پس امام کو اختیار ہے چاہے گھر چلا جائے لیکن افضل یہ ہے کہ اپنی محراب میں بیٹھا رہے اور جماعت کی طرف منھ کر لے جب کہ اس کے سامنے کوئی مسبوق نماز نہ پڑھتا ہو اور اگر کوئی نماز پڑھتا ہو تو دائیں یا بائیں طرف کو پھر جائے اور اگر امام اور اس نمازی کے بیچ میں کوئی تیسرا شخص ہو جس کی پیٹھ نمازی کی طرف ہو تو امام کے اس طرف منھ کرنے میں کوئی کراہت نہیں کیونکہ تیسرا شخص بجائے سترے کے ہو جائے گا، سردی اور گرمی کے موسم کا ایک ہی سا حکم ہے یہی صحیح ہے، صبح کی نماز کے بعد امام کو طلوع آفتاب تک اپنی محراب میں بیٹھے رہنا افضل ہے، فرض نمازوں کے بعد جب کہ ان کے بعد سنتیں نہ ہوں یعنی فجر و عصر میں فرضوں کے بعد اور جن فرضوں کے بعد سنتیں ہوں یعنی ظہر و مغرب وعشا میں سنتوں کے بعد یہ اذکار مستحب ہے
اَستَغفِرَ اللّٰہُ العَظِیمَ الَّذِی لَاَ اِلَہَ اِلَّا ھُوَ الحَیُّ القَیُّومُ وَ اَتُوبَ اِلَیہ ؕ
تین مرتبہ آیت کرسی
سورة اخلاص قُل ھُوَ اللّٰہُ اَحَدُ ط ایک مرتبہ
سورة الفلق قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَق ط ایک مرتبہ
سورة الناس قُل اَعُوذُ بِرَبِ النَّاسِ ط ایک مرتبہ
سُبحَانَ اللّٰہ تینتیس(٣٣) بار
اَلحَمدُ لِلَّہ تینتیس(٣٣) بار
اللّٰہ اکبر تینتیس(٣٣) بار
یہ تینوں مل کر ننانوے بار ہوئے اور سو پورا کرنے کے لئے ایک بار
لَا اِلَہ اِلَّا اللّٰہُ وَحدَہُ لَا شَرَیکَ لَہ‘ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَی ئٍ قَدِیر
( بعض روایتوں میں اللّٰہ اکبر چونتیس (٣٤) بار آیا ہے، ان چاروں کلمات کا مذکورہ طریقے پر ملا کر سو بار پڑھنا تسبیح فاطمی کہلاتا ہے) اس کے بعد دعا مانگے دعا کے وقت دونوں ہاتھ سینے تک اٹھا کر پھیلائے اور اللّٰہ تعالٰی سے دعا مانگے اور امام ہو تو تمام مقتدیوں کے لئے بھی دعا مانگے اور مقتدی خواہ اپنی اپنی دعا مانگیں یا اگر امام کی دعا سنائی دے تو سب آمین کہتے رہیں اور دعا ختم کرنے کے بعد دونوں ہاتھ منھ پر پھیرے نماز کے بعد کی دعا غیر عربی زبان میں مانگنا بلا کراہت جائز ہے
فائدہ: احادیث میں کسی دعا و ذکر کی بابت جو تعداد ورد ہے اس سے کم زیادہ نہ کرے کیونکہ یہ فضائل ان اذکار کے لئے وارد ہیں وہ اسی تعداد کے ساتھ مخصوص ہیں ان میں کم زیادہ کرنے کی مثال ایسی ہے کوئی قفل کسی خاص قسم کی کنجی سے کھلتا ہے اب اگر اس کجنی میں دندانے اس سے کم یا زیادہ کر دیں تو پھر اس سے وہ قفل نہ کھلے گا، البتہ اگر شمار میں شک واقع ہو تو زیادہ کر سکتا ہے اور یہ زیادتی نہیں بلکہ اتمام ہے۔